Wednesday, August 26, 2009

Testing

Pakistan Zindabad


ترکی میں خواتین کے حقوق کی جنگ


استنبول: گزشتہ دو عشروں کے دوران خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی کم و بیش 30 ترک این جی اوز نے عورتوں کے خلاف تشدد کے خاتمے اور صنفی مساوات کو فروغ دینے کے لئے قانونی، سیاسی اور سماجی تبدیلی لانے کی تحریک کی قیادت سنبھال لی ہے۔ تاہم یہ تبدیلی لانا کوئی آسان کام نہیں کیونکہ ان این جی اوز کو چاروں طرف پھیلی افراتفری کے درمیان عورتوں کے حوالے سے ذہنوں پر ثبت روایتی تصورات کے ساتھ لڑنا پڑ رہا ہے۔

مشرقِ وسطٰی میں بڑھتی ہوئی عسکریت اور دنیا بھر میں قدامت پرستی میں اضافے سے آج کل ترکی میں لوگوں کی زندگی بُری طرح بد نظمی کا شکار ہے۔ ترکی کے مشرقی اور جنوب مشرقی علاقوں میں ترک فوج اور کرد باغیوں کے درمیان مسلّح تصادم اور استنبول اور ازمیر میں ہونے والے حالیہ بم حملوں کے نتیجے میں عورتوں کی طرف سے برابری، صنفی بنیاد پر تشدد کے خاتمے اور قانون کی بالادستی کے مطالبوں جیسے معاملات قومی ترجیحات میں ثانوی حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔

ملک بھرمیں، بالخصوص کُرد شہروں دیار باقر اور وان میں، سیکورٹی کے انتظامات انتہائی سخت کر دیئے گئے ہیں۔ مسلّح افواج سڑکوں پر گشت کرتی ہیں اور جا بجا لگے پولیس کے ناکوں پر لوگوں کی شناخت کی جاتی ہے۔ اس صورتحال میں لوگ گھر سے صرف اشد ضرورت پڑنے پر ہی باہر نکلتے ہیں۔ بہت سے لوگوں نے حفظِ ماتقدم کے طور پر خواتین کا گھر سے نکلنا بالکل بند کردیا ہے۔

اس کشیدہ ماحول میں خواتین کی این جی اوز بڑھتے ہوئے تشدد، خواتین کی نفسیات پر اس کے اثرات اور آزادی سے گھومنے پھرنے کے حق کو محدود کئے جانے کے حوالے سے فکر مند ہیں۔ ساری توجہ عورت کی جسمانی سلامتی پر مرکوز رکھنے والے معاشرے میں ان خواتین کی ان تنظیموں کو امید ہے کہ وہ کمیونِٹیز کی اس طرح رہنمائی کرنے میں کامیاب ہوجائیں گی کہ " عورتوں کا تحفظ" نہیں بلکہ " عورتوں کے حقوق کا تحفظ" کیا جائے۔

اگست 2008 کے آخری دنوں میں خواتین کے موضوعات پر کام کرنے والی کئی تنظیموں کی 60 خواتین شمالی ترکی کے چھوٹے سے شہر علازِگ میں منعقدہ سہ روزہ ورکشاپ میں اکٹھی ہوئیں جہاں انہوں نے قومی اور علاقائی سطح پر عورتوں کو درپیش مسائل پر گفتگو کی۔ ورکشاپ میں شرکت کرنے والی تنظیموں میں سارے ویمنز ایسوسی ایشن، وان ویمنز ایسوسی ایشن، یاکا کُوپ اور بِطلِس گُل دونیا ویمنز سینٹر کے علاوہ فلمور ویمنز کوآپریٹو اور ویمن فار ویمنز ہیومن رائٹس بھی شامل تھیں۔

ورکشاپ کے شرکأ نے بہت سے ایسے معاملات پر بحث کی جو اس وقت خواتین کو بری طرح متاثر کررہے ہیں۔ ان میں تشدد سے نجات، جنسی اور افزائشِ نسل کے حقوق اور خاص طور پر وہ اثرات شامل ہیں جو تشدد کی حالیہ لہر نے عورتوں پر مرتب کئے ہیں۔

ورکشاپ میں شریک سبھی خواتین نے اس پر اتفاق کیا کہ ملک میں بڑھتی ہوئی عسکری ذہنیت نے ترک معاشرے میں مردوں کی بالادستی کو دوام دیا ہے۔ وہ سب اس بات پر بھی متفق تھیں کہ مسلح تنازعات اور بے یقینی کے نتیجے میں جنم لینے والے فرسودہ رویّوں کو الٹانے کے لئے کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ان رویّوں نے سماجی، اقتصادی اور سیاسی زندگی میں عورتوں کی مساویانہ شمولیت کو محدود کردیا ہے۔

یہ رویّے ان این جی اوز کے لئے اپنے مقاصد کا حصول مشکل بنا رہے ہیں کیونکہ خواتین کے کہیں آنے جانے پر پابندی انہیں اپنی ضروریات کے مطابق منظّم ہونے اور نیٹ ورکنگ سے باز رکھ رہی ہے۔ بعض لوگوں نے ان رویّوں کو برحق ثابت کرنے کے لئے یہاں تک کہا ہے کہ خواتین کی خود مختار تنظیمیں صرف اس لئے وجود میں آئی ہیں کہ "خاندانی اقدار" اور "عوامی اخلاقیات" کو کمزور کیا جائے، خاندانی نظام توڑا جائے اور طلاق لینے میں عورتوں کی مدد کی جائے۔

موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ ملک بھر میں پھیلا خواتین کی این جی اوز کا طاقتور نیٹ ورک بڑھتی ہوئی عسکری ذہنیت اور قدامت پسندی کے اس ماحول میں صنفی مساوات قائم کرنے کا مقصد حاصل کرنے کے لئے یونہی کام کرتا رہے۔

ترک خواتین پہلے بھی اس طرح کی مشکلات پر قابو پا چکی ہیں۔ 2001 میں حقوقِ نسواں کی تحریک سِول کوڈ میں اصلاحات لانے جیسی انقلابی نوعیت کی قانونی تبدیلیاں لانے میں بھی کامیاب ہوگئی تھی۔ ترمیم کے بعد اس سول کوڈ کے تحت شادی، طلاق، بچّوں کی تحویل، وراثت اور جائیداد کے معاملات میں مرد و عورت کو برابر تسلیم کیا گیا ہے۔ اسی طرح 2004 میں ضابطۂ فوجداری میں بھی ترمیم کی گئی تھی جس کے بعد قانون عورت کی خود مختاری کی ضمانت دیتا اور عورت کے اپنے جسم اور جنسیت پر حق کو تسلیم کرتا ہے۔

گزشتہ برس بھی عورتوں کی تحریک نے ایک بار پھر اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکمران جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی ( اے کے پی ) کو آئین میں ترمیم کے ذریعے "مرد اور عورت برابر ہیں" کی شق ختم کرنے سے روک دیا تھا۔

ترکی کی خواتین اور ان کی این جی اوز کو عسکری ذہنیت کے اس ماحول میں اپنی نظریں اپنے مقاصد سے نہیں ہٹانی چاہئیں اور مکمل صنفی مساوات قائم کرنے کی منزل تک پہنچنے کے لئے یونہی ایک دوسرے کے کندھے سے کندھا ملا کر کام کرتے رہنا چاہیے۔ حقوقِ نسواں کی تحریک کو چاہیے کہ اس حرکی قوت اور سیاسی دباؤ کا فائدہ اٹھائے جو اس نے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے غیر متشدد طریقے اختیار کرنے پر زور دے کر پیدا کیا ہے۔


*ایور کائی نک حقوقِ نسواں کی ایکٹِوسٹ ہیں اور "ویمن فار ویمنز رائٹس ( ڈبلیو ڈبلیو ایچ آر) – نیو ویز" کے ساتھ منسلک ہیں۔ یہ مضمون کامن گراؤنڈ نیوز سروس (سی جی نیوز) کے لئے لکھا گیا ہے اور اسے مندرجہ ذیل ویب سائٹ سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔